احمد اواہ    :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

محمد سہیل   :  و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  :   سہیل بھائی آپ کے  علم میں ہے  کہ ہمارے  یہاں سے  ایک دعوتی میگزین ارمغان کے  نام سے  نکلتی ہے  اس میں اسلام قبول کرنے  والے  خوش قسمت بھائی اور بہنوں کی آپ بیتی انٹر ویو کے  ذریعہ شائع کی جاتی ہے، ابی کا حکم ہے  کہ میں آپ سے  اس کے  لئے  ایک انٹرویو لوں، اس لئے  آپ کو اندر بلایا ہے۔

جواب  :  بھائی احمد ضرور، میری خود بڑی خواہش ہے  کہ مجھ گندے  پر اللہ کے  کرم کی کہانی لوگ پڑھیں، تاکہ لوگوں کو فائدہ ہو۔

سوال  :   آپ اپنا خاندانی پریچے  (تعارف) کرائیں ؟

جواب  :  میں گجرات کے  مہسانہ ضلع کے  ایک گاؤں کے  ٹھا کر زمین دار کا بیٹا ہوں میرا پرانا نام یوراج سنگھ ہے، یوراج سنگھ سے  ہی لوگ مجھے  جانتے  ہیں، بعد میں پنڈتوں نے  میری راشی کے  لئے  مشہور نام ہٹا کر میرا نام مہیش رکھا مگر یوراج ہی مشہور ہو گیا، ۱۳/ اگست ۱۹۸۳ء میری تاریخ پیدائش ہے، ہمارا اپنا خاندانی کالج ہے، اے  جے  جسپال ٹھا کر کالج، اس سے  میں بی کام کر رہا تھا کہ مجھے  تعلیم چھوڑنی پڑی میرے  ایک بھائی اور ایک بہن ہے، میرے  بہنوئی بڑے  نیتا ہیں، اصل میں وہ بی جے  پی کے  ہیں، مقامی راجنیتی میں اپنا وزن بڑھانے  کے  لئے  انھوں نے  اس سال کانگریس سے  الیکشن لڑا ہے  اور جیت گئے  ہیں۔

سوال  :  اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں بتایئے ؟

جواب  :گودھر ا کانڈ کے  بعد  ۰ ۲۰۰ء کے  فسادات میں ہم آٹھ دوستوں کا ایک گروپ تھا، جو فسادات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا، ہمارے  علاقہ میں درندگی کا ننگا ناچ ہو رہا تھا، ہمارے  گاؤں سے  ۱۵/ کلو میٹر دور سندرپور میں ۶۰، ۷۰/لوگوں کو زندہ جلا دیا گیا تھا، ہم لوگ بھی جوانی کے  زعم میں بہادری سمجھ کر اس میں حصہ لیتے  تھے  ہمارے  گھر کے  قریب گاؤں میں ایک چھوٹی سی مسجد تھی، لوگ کہتے  تھے  یہ بڑی اتہاسک (تاریخی) مسجد ہے، اس کو بڑے  پیر صاحب جن کو لوگ پیر ہمدانی کہتے  ہیں نے  بنوائی تھی، گجرات کے  لوگ ان کے  ہاتھ پر مسلمان ہوئے، ہمارے  گاؤں کی اس مسجد کو ہمیں ڈھا دینا چاہیے، ہم آٹھوں ساتھی اس کو گرانے  کے  لئے  گئے، بہت کوشش کے  باوجود اصل مسجد کو ہم گرانہ سکے، ایسا لگتا تھا کہ ہمارے  کدال لکڑی کے  ہیں، لوہے  کے  نہیں، بہت مجبور ہو کر ہم نے  باہر والی دیوار گرانی شروع کی، جو ابھی کچھ سال پہلے  گاؤں والوں نے  بنوائی تھی اس دیوار کو گرا کر ہم نے  سوچا کہ اس مسجد کو جلا دینا چاہئے  اس کے  لئے  پٹرول لایا گیا اور پرانے  کپڑے  میں پٹرول ڈال کر مسجد کو جلانے  کے  لئے  ایک ساتھی نے  آگ لگائی تو خود اس کے  کپڑوں میں آگ لگ گئی اور وہ وہیں جل کر مرگیا، میں تو یہ منظر دیکھ کر ڈر گیا، میرے  ساتھی کوشش کرتے  رہے، مسجد کو کچھ نقصان پہنچا دو ہفتوں کے  اندر میرے  چار ساتھی اچانک ایک کے  بعد ایک مر گئے، ان کے  سر میں درد ہوتا تھا اور وہ تڑپ تڑپ کر مر گئے، میرے  علاوہ باقی دو پاگل ہو گئے، مجھ پر ڈر طاری ہو گیا میں ڈرا ڈرا چھپا پھرتا تھا، رات کو اس ٹوٹی مسجد میں جا کر روتا تھا کہ اے  مسلمانوں کے  بھگوان مجھے  شَما(معاف) کر دو، اپنا ما تھا وہاں ٹیکتا، اس دوران مجھے  سپنے  (خواب ) بہت دِکھنے  لگے  اور خواب میں نرک اور سورگ (جنت اور دوزخ) دونوں دِکھتے۔

سوال  :  جنت اور دوزخ کس طرح دکھائی دیتے  تھے، ایک دو خواب سنایئے ؟

جواب  : میں نے  ایک بار دیکھا میں نرک میں ہوں اور وہاں کا ایک داروغہ ہے  وہ میرے  ان ساتھیوں جو مسجد کو گرانے  میں میرے  ساتھ تھے  اپنے  جلادوں سے  سزا دلوا رہا ہے، اور سزایہ ہے  کہ لمبے  لمبے  لوہے  کے  کانٹوں کا ایک جال ہے، اس پر ڈال کر ان کو کھینچ رہے  ہیں اور مانس(گوشت )اور کھال گردن سے  پیروں تک اتر جاتا ہے  پھر ٹھیک ہو جاتا ہے  اس کے  بعد ان کو الٹا لٹکا دیا اور نیچے  آگ جلا دی گئی جو منھ سے  اوپر کو نکل رہی ہے  اور دو جلاد ہنٹر سے  ان کو مار رہے  ہیں وہ رو رہے  ہیں، چیخ رہے  ہیں کہ ہمیں معاف کر دو ہم اب کسی مسلمان کو نہیں ماریں گے  نہ کوئی مسجد ڈھائیں گے  داروغہ جلال میں کہتا ہے  توبہ کا موقع ختم ہو گیا ہے  موت کے  بعد کوئی توبہ نہیں ہے  اس طرح کے  وحشت ناک منظر مجھے  روز روز دکھائی دیتے  اور میں ڈر کے  مارے  پاگل سا ہونے  کو ہوتا، تو پھر مجھے  سورگ دکھائی جاتی سورگ جنت ہے  دیکھتا کہ دودھ کے  تالاب سے  بھی چوڑی نہر ہے  دودھ بہہ رہا ہے  اور خو بصورت لہریں چل رہی ہیں، ایک نہر مدھو یعنی شہد کی ہے، ایک ٹھنڈے  پانی کی، اتنی اچھی کہ میری تصویر اس میں صاف دکھ رہی ہے، ایک نہر مدرا کی ہے  (یہ شرا ب کی نہر ) میں نے  کہا شراب تو گندی چیز ہے، ہمارے  پر یو ار میں شراب بہت بری سمجھی جاتی ہے، جواب دیا یہ پاک اور خوشبو والی شراب ہے  اس کو پی کر نشہ نہیں ہوتا، ایک بار دیکھا کہ بہت خوبصورت درخت ہے  اتنا بڑا کہ ہزاروں لوگ اس کے  سایہ میں آ جائیں کبھی بہت اچھے  باغ دیکھتا اور ہمیشہ مجھے  وہاں اللہ اکبر اللہ اکبر کی تین بار آواز آتی، مجھے  اچھا نہ لگتا اور جب میں ساتھ میں اللہ اکبر نہ کہتا تو مجھے  اٹھا کر سورگ سے  باہر پھینک دیا جاتا، میری آنکھ کھلتی تو میں بستر سے  نیچے  پڑا ملتا۔

ایک بار میں نے  سورگ کو دیکھا تو لا الہ الا اللہ کہا وہاں کے  بہت بہت سارے  لڑکے  لڑکیاں، وہاں سورگ میں میری خدمت میں لگ گئے  اس طرح کافی دن گذر گئے  گجرات میں فساد ہوتا رہا مگر اب مجھے  اندر سے  ایسا لگتا تھا جیسے  میں مسلمان ہوں جب مسلمانوں کے  قتل کی خبر سنتا تو میرا دل بہت دکھتا، میں ایک روز بیجا پور گیا، وہاں ایک مسجد دیکھی، وہاں کے  امام صاحب سہارنپور کے  تھے  وہ ہریانہ میں مولانا کلیم صاحب کے  ساتھ کام کر چکے  تھے  ان سے  میں نے  پورا حال بتایا انھوں نے  کہا کہ اللہ کو آپ سے  بہت پیار ہے، اگر آپ سے  پیا ر نہ ہوتا تو اپنے  ساتھیوں کی طرح آپ بھی دوزخ میں جل رہے  ہوتے  آپ اس رحمت کی قدر کریں اور اسلام  قبول کر لیں، انھوں نے  بتایا کہ بابری مسجد کو شہید کرنے  والے  سب سے  پہلے  کدال چلانے  والے  دونوں نوجوان بھی ہمارے  مولانا صاحب (مولانا کلیم صاحب ) کے  ہاتھ پر مسلمان ہو چکے  ہیں، شاید آپ کو بھی اللہ کو ہدایت دے  کر سچے  راستہ پر لانا ہے  اب دیر نہیں کرنی چاہئے  ہریانہ کے  ایک دو ڈاکوؤں کے  مسلمان ہونے  کے  قصے  بھی انھوں نے  سنائے، خوابوں سے  پہلے  اسلام کے  نام سے  میں چڑتا تھا، ٹھا کر کالج میں کسی مسلمان کو داخل بھی نہیں ہونے  دیتا تھا مگر نہ جانے  کیوں اسلام کی ہر بات اب مجھے  اپنی لگنے  لگی بیجاپور سے  میں گھر آیا اور میں نے  ارادہ کر لیا کہ مجھے  مسلمان ہونا چاہئے  ورنہ اپنے  ساتھیوں کی طرح مجھے  بھی نرک کی سزا بھگتنی پڑے  گی۔

میں نے  احمد آباد جامع مسجدگیا اور اسلام قبول کر لیا، مولانا صاحب نے  گھر والوں سے  اسلام کو چھپانے  کو کہا میں احمد آباد سے  ’رہبر نماز ‘ نام کی کتاب لے  کر آیا اور نماز یاد کرنے  لگا اور رفتہ رفتہ نماز یاد کر کے  چھپ کر نماز پڑھنا شروع کر دی، امتحان کے  بعد گرمیوں کی چھٹی ہوئی تو میں نے  جماعت میں جانے  کا پروگرام بنایا گھر والوں سے  گوا گھومنے  کے  لئے  ٹکٹ بنوایا اور اپنے  دوست کو اپنے  ٹکٹ پر بھیج دیا میرا چلہ بڑودہ میں لگا ’فضائل اعمال ‘اور ’مرنے  کے  بعد کیا ہو گا؟‘میں نے  پڑھیں تو جب میں جنت دوزخ کے  حال کو پڑھتا تو وہ سب مجھے  آنکھوں دیکھا لگتا تھا، چلہ لگا کر میں گھر آیا، تو چپکے  چپکے  نماز پڑھتا، ایک روز ہمارا نوکر ویریندر سنگھ اچانک دودھ لے  کر میرے  کمرے  میں آ گیا اس نے  مجھے  نماز پڑھتے  ہوئے  دیکھ لیا اس نے  میرے  پتاجی اور گھر والوں کو بتا دیا کہ چھوٹے  بابو تو مسلمانوں کی بھانتی نماز پڑھ رہے  تھے، میرے  پتاجی کو کچھ شک سا پہلے  ہی ہو گیا تھا، میں کالج سے  آیا تو میرے  پتاجی نے  دروازے  میں مجھے  روک دیا اور بولے  ہمیں معلوم ہو گیا کہ تو مسلمان ہو گیا ہے، اب یا تو اسلام یا گھر ایک چیز چھوڑنی پڑے  گی ایسے  اَدھرم کے  لئے  اس گھر کا دروازہ نہیں کھل سکتا، میں جماعت میں تھا تو میں سوچتا تھا کہ اسلام کے  لئے  اگر مجھے  دیش چھوڑ کر بخارا جانا پڑے  تو خوشی سے  جاؤں گا میں نے  سوچاکہ اللہ کا شکر ہے  اسلام میرے  رگ رگ میں اس طرح رچ بس گیا ہے  کہ جان، سانس اور اسلام میں سے  ایک چیز چھوڑنے  کے  لئے  مجھے  کہا جائے  تو جان سانس کا چھوڑنا میرے  لئے  آسان ہو گا، اسلام چھوڑنے  کا تصور بھی میرے  لئے  جان لیوا ہے، میں نے  سوچا کہ اللہ کی زمین پر کب تک گھٹ گھٹ کر جیوں گا، من چاہی چھوڑ کر رب چاہی جینے  کا نام ہی تو اسلام ہے، جب من چاہی چھوڑی ہے  تو رب چاہی کے  لئے  جن(عوام ) چاہی چھوڑنا کیا مشکل ہے، میں نے  پتاجی سے  پورے  وشواس کے  ساتھ کہا کہ اگر یہ بات ہے  تو میں گھر چھوڑتا ہوں اسلام چھوڑ دوں یہ خیال بھی حماقت ہے  میرا موبائیل، میرا ایٹی ایم اور کریڈٹ کارڈ مجھ سے  چھین لیا گیا، میں احمد آباد پہنچا وہاں پر جوہاپورہ مسجد میں گیا مگر وہاں پر سب لوگ ڈرے  ہوئے  تھے  اس لئے  وہاں کے  لوگوں نے  مجھے  رہنے  کی اجازت نہیں دی، وہاں سے  دریا پور پرانے  مرکز گیا انھوں نے  میرے  سرٹیفکٹ وغیرہ دیکھے  انھوں نے  فون وغیرہ کر کے  میرے  بارے  میں تحقیق کی جب ان لوگوں کو معلوم ہوا کہ میرے  والد کے  وہاں کے  مشہور بی جے  پی لیڈر جو اب منتری بھی بن گئے  ہیں سے  تعلقات ہیں، تو انھوں نے  بھی وہاں رہنے  کی اجازت نہیں دی اور معذرت کر دی، میرے  پاس کھانے  کے  لئے  پیسے  نہیں تھے  میں چائے  اور بسکٹ لیتا اور بسم اللہ پڑھ کر یقین سے  کھا لیتا اور دعا کرتا میرے  اللہ ! آپ ہر چیز پر قادر ہیں مجھے  اس چائے  اور  بسکٹ سے  تین دن کی طاقت دیدے، میرے  اللہ کا شکر ہے  کہ تین تک مجھے  بھوک نہ لگتی، ایک صاحب نے  مجھے  پالن پور بھیج دیا وہاں پر ایک حاجی صاحب نے  مجھ سے  کہا کہ اگر سدھ پور چلے  جاؤ تو وہاں پر تمہارا انتظام ہو سکتا ہے  سدھ پور پہنچا جہاں سے  مجھے  راجستھان میں نیو جے  پور ہوٹل (جو جے  پور اجمیر ہائی وے  پر ہے  )وہاں بھیج دیا ہوٹل کے  مالک ذکرو بھائی نے  مجھے ۲۵/دن وہاں رکھا وہاں نماز پڑھتا اور اپنی مرضی سے  کچھ ہوٹل کا کام بھی کرتا حالانکہ وہ مجھے  منع کرتے  تھے، انھوں نے  احمد بھائی ڈلکس سے  رابطہ کیا وہ مولانا کلیم صاحب کے  خاص آدمی تھے  انھوں نے  مجھے  پھلت جانے  کا مشورہ دیا، پتہ لے  کر میں دہلی آیا اور پہلے  جامع مسجد پہنچا خیال تھا کہ اسلام قبول کرنے  کا سرٹیفکٹ بنوا لوں تا کہ لوگ  شک نہ کریں، وہاں کوئی بخاری صاحب امام ہیں انھوں نے  مجھے  جمعہ کو آنے  کو کہا، جب یہاں (پھلت)آیا تو یہاں کا ماحول دیکھ کر بالکل ایسا لگا کہ میں اپنے  گھر میں آیا ہوں۔

سوال  :  یہاں آ کر آپ نے  کیا خاص بات محسوس کی؟

جواب  :  یہاں پر ہم سب لوگ مولانا صاحب کو ابی جی کہتے  ہیں، مجھے  پھلت آ کر صحابہ کے  وہ قصے  جو حکایت الصحابہ میں پڑھے  تھے  اور ہمارے  نبی ﷺ کی زندگی کے  سارے  حالات آنکھوں دیکھے  لگنے  لگے، کبھی کبھی گھر کی یاد آتی ہے، مولانا صاحب کے  بارے  میں معلوم ہوتا ہے  کہ آج سفر سے  آنے  والے  ہیں پہلے  سے  خوشی ہونے  لگتی ہے  اور مولانا صاحب آئے  اور مصافحہ ملایا کبھی گلے  لگایا جس سے  سارے  غم دھل گئے۔

سوال  : اسلام قبول کرنے  کے  بعد آپ کیا محسوس کرتے  ہیں ؟آپ کا کیا خیال ہے  کہ اگر آپ اسلام قبول نہ کرتے  تو کیا ہوتا؟

جواب  :  کفر پر مر جانے  کا تو تصور بھی میرے  لئے  دوزخ سے  کم نہیں، میرے  بھائی، میرے  کو بس اللہ کا کرم ہے، ورنہ اپنے  ساتھیوں سے  زیادہ دوزخ کا مستحق تھا، میں زمین داری اور مالداری کے  زعم میں کیسے  کیسے  ظلم کرتا تھا اللہ کی زمین پر چلتا اس کا دیا کھاتا تھا، اس کے  دیئے  ہوئے  شریر (جسم) سے  نہ صرف یہ کہ اس کا حق ادا نہیں کرتا تھا بلکہ اس کی مرضی کے  خلاف ہی ہر کام کرتا تھا، میں نے  اسلام قبول کیا تو ایک روز گھر میں وشنو بھگوان کی مورت دیکھ رہا تھا اس پر میری ماں نے  پرساد چڑھایا تھا دو تین چیونٹیاں اس پر ساد میں سے  کھینچ کر لے  جا رہی تھیں، تھوڑی  دیر میں ایک کتا باہر سے  آ گیا اس نے  وہ پرساد کھایا اور سارا چاٹ کر ٹانگ اٹھا کر وہاں پیشاب کر دیا نہ وہ چیونٹی کو روک سکے  نہ کتے  کو، میں اپنی عقل پر بہت  ہنسا کہ سہیل اگر میرے  خدا کی مجھ پر مہربانی نہ ہوتی اور مجھے  ہدایت نہ دی ہوتی تو میں کیسی حماقت کے  ساتھ اس مورتی کے  آگے  سر جھکاتا، جب کبھی اپنے  ہندو بھائیوں سے  بات کرتا تو مجھے  اور بھی افسوس اور حیرت ہوتی وہ کہتے  کہ دیکھو ہم جس بھگوان کی مورتی کی پوجا کرتے  ہیں وہ تو ہمارے  ساتھ ہے، مسلمان جس خدا کی پوجا کرتے  ہیں اسے  کس نے  دیکھا ہے  ؟میں ان سے  کہتا اچھا بتاؤ جس ہوا میں سانس لیتے  ہو اس میں آکسیجن ہے  کہ نہیں ؟ وہ کہتے  اگر آکسیجن نہ ہو تو مر جائیں، میں نے  کہا جس آکسیجن سے  تم سانس لیتے  ہو اس کو تم نے  دیکھا ہے  ؟وہ کہتے  کہ ہم اپنی عقل سے  محسوس تو کرتے  ہیں، میں کہتا کہ آکسیجن کو تم بغیر دیکھے  محسوس کرتے  ہو اور وشواس کرتے  ہو اور آکسیجن کے  پیدا کرنے  والے  مالک کو نہ محسوس کرتے  نہ اس کے  اوپر وشواس کرتے  ہو، افسوس ہے  تمہاری عقل پر، میرا ارادہ ہے  ذرا معاملہ ٹھنڈا ہو جائے  تو ورلڈ نیوز میں اپنی کہانی بھیجوں گا اس لئے  ہمارا پریوار پورے  علاقے  میں ہر طرح سے  بڑا سمجھا جاتا ہے  لوگ مجھے  دیکھ کر یہ سمجھتے  تھے  کہ تو سورگ میں رہتا ہے، اسلام کے  نام سے  میں چڑھتا تھا شاید جو شبد ( لفظ ) میرے  کئے  سب سے  گھر ڑاں ( نفرت )  کا لفظ  تھا وہ مسلمان تھا مگر جب حق آیا اور میری عقل سے  پردے  ہٹے  تو مجھے  خیال ہوتا ہے  کہ اپنے  سچے  مالک کو، اس کی مرضی نہ مان کر میں کیسے  نرک میں جی رہا تھا  اب سب سے  پیارا لفظ کوئی ہے  تو میرے  لئے  اسلام ہے، اگر کوئی مجھ سے  اسلام اور مسلمان کے  لئے  جان اور خون مانگے  تو میں سوچتا ہوں کہ میں اپنے  لئے  سوبھاگیہ ( خوش قسمتی ) سمجھ کر دوں گا، میں اس لئے  لوگوں کے  سامنے  اپنی کہانی سنا نا چاہتا ہوں کہ لوگ جانیں کہ ایسے  بڑے  گھر کا لڑکا کسی لالچ میں تو فیصلہ نہیں کرے  گا، اسلام حق ہو گا جو سب گھر بار چھوڑ کر اس نے  اسلام کو قبول کیا۔

سوال  :    اپنے  گھر والوں کے  بارے  میں آپ فکر کرتے  ہیں ؟

جواب  :  خون کا رشتہ ایک جذباتی رشتہ ہوتا ہے، اپنے  گھر والوں کو بہت یاد کرتا ہوں، بلکہ گھر والوں سے  زیادہ مجھے  ان کی موت بہت یاد رہتی ہے، ابھی تو میرے  لئے  وہاں رابطہ کرنا بھی آسان نہیں ہاں میں دعا کرتا ہوں، میں نے  ابی جی (  مولانا کلیم صاحب ) سے  دعا کے  لئے  کہا ہے، مجھے  یقین ہے، انھوں نے  وعدہ کیا ہے  اور مجھ سے  کہا ہے  کہ وہ دعا کرتے  ہیں، اللہ ان کی دعا ضرور قبول کریں گے، اور انشاء اللہ ضرور بالضرور میرا پریوار  (خاندان ) اسلام کے  سایہ میں آئے  گا  ایک روز میں نے  ابی جی مولانا کلیم صاحب سے  کہا آپ میرے  باپ اور گرو سب کچھ ہیں آپ سے  ایک چیز مانگوں گا، تو آپ دیں گے  ؟ میرا نام مولانا صاحب نے  سہیل خان رکھا تھا، میرا دل میرا چاہتا ہے  کہ میرا نام آپ سے  جڑے  جب آپ میرے  ماں باپ بلکہ ماں باپ نے  دھکے  دیئے  ہیں، آپ تو ماں باپ سے  بھی زیادہ ہیں، تو میں اگرسہیل صدیقی لکھنے  لگوں آپ مجھے  اجازت دیں  مجھے  امید ہے  اگر میں اپنا نام سہیل صدیقی لکھنے  لگوں گا تو مولانا کلیم صدیقی کی طرح اللہ ہمیں بھی لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بنائیں گے، کم از کم میرے  پریوار کے  لئے  تو اسلام کے  فیصلے  ہو جائیں گے، ابی جی نے  کہا بیٹا سچی بات یہ ہے  کہ ابھی تو کلیم صدیقی خود بھی مسلمان نہیں ہوا اصل بات یہ ہے  کہ ہمارے  نبیﷺ نے  ہمیں سچی خبر دی ہے  کہ قیامت سے  پہلے  ہر کچے   پکے  گھر میں اسلام داخل ہو جائے  گا، وہ خبر تو سچ ہونی ہے، نام کلیم صدیقی کا ہو رہا ہے، ایسے  گندے  سے  نسبت سے  کیا فائدہ، اصل میں یہ صدیقی نسبت حضرت ابو بکر صدیق کی طرف ہے، جنھوں نے  بغیر پس و  پیش اور جھجک کے  پہلے  لمحہ میں اللہ کے  رسولﷺ کی تصدیق کی اس لئے  آپ صدیق کہلائے  آپ نے  جنت دوزخ خواب میں دیکھ کر اسلام کی سچائی کی تصدیق کی آپ اس نیت سے  اپنے  کو سہیل صدیقی لکھا کریں، اس کے  بعد سے  میں اپنا نام سہیل خان کی جگہ سہیل صدیقی بتا تا ہوں۔

سوال  :  مسلمانوں کے  لئے  کوئی پیغام آپ دیں گے  ؟

جواب  : ایک آدمی سفر کرتا ہے  ریل میں، دو تین گھنٹے  کا سفر، کبھی کبھی تو ریل میں چیکنگ ہو جاتی ہے  ورنہ جب اسٹیشن کے  گیٹ سے  گھر کے  لئے  جا تا ہے  تو ٹکٹ چیک ہوتا ہے، اس دنیا کی ریل میں سے  اپنے  گھر آخرت کے  دروازے  پر ٹکٹ کی چیکنگ ضرور ہوتی ہے  اور یہاں کا ٹکٹ ایمان ہے  بغیر ایمان کے  ’بغیر ٹکٹ یا تری ‘ کی طرح آدمی نرک (دوزخ) کی جیل کے  منھ میں ہے  اس لئے  ہمیں ساری دنیا کے  انسانوں کو اس ٹکٹ کے  حاصل کرنے  کے  لئے  کہنا تو چاہئے، اسلام ایسی سچائی ہے  کہ اگر وہ لوگوں تک پہنچ جائے  تو سب کا حال میری طرح بدل جائے  گا اور ہم مسلمانوں کی یہ خاص ذمہ داری ہے، جس کو آخرت اور جنت دوزخ پر یقین نہ آئے  میرے  دل سے  پوچھ لے  کہ دوزخ کیسی خطرناک جگہ ہے، (جھرجھری لیتے  ہوئے ) اللہ بچائے، اللہ بچائے  اور جنت کیسی جگہ ہے  اس کے  لئے  آدمی قربان ہو جائے۔

سوال  :   بہت بہت شکریہ  ! السلام علیکم

جواب  :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ  فی امان اللہ

(مستفاد از ماہ نا مہ ارمغان، اپریل، مئی  ۲۰۰۶ء)